امریکہ اور ایران: جوہری کشمکش، تاریخی دشمنی اور مشرق وسطیٰ کا سیاسی میدان
ڈاکٹر آصف نواز
اسسٹنٹ پروفیسر، ہمدرد انسٹیٹوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، جامعہ ہمدر، نئی دلی
9013228794
امریکہ اور ایران: جوہری کشمکش، تاریخی دشمنی اور مشرق وسطیٰ کا سیاسی میدان
عمان میں ہونے والی بات چیت: سفارت کاری یا جنگ کی دہلیز؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 8 اپریل 2025 کو اعلان کیا تھا کہ آنے والے سنیچر بمطابق 12 اپریل کو عمان میں ایران کے جوہری پروگرام کے سلسلے میں ایک اہم "اعلی سطحی ملاقات" ہونے جارہی ہے، جسے امریکی انتظامیہ ایک بلا واسطہ ملاقات کا نام دے رہی ہے جب کہ ایران اسے عمانی ثالثی کے ذریعے "بالواسطہ مذاکرات" قرار دے رہا ہے۔ ٹرمپ نے پیر کو دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا کہ، "میرے خیال میں اگر ایران کے ساتھ بات چیت کامیاب نہیں ہوتی ہے، تو مجھے لگتا ہے کہ ایران بہت خطرے میں پڑ جائے گا۔ اور مجھے " بڑا خطرہ" (جیسے الفاظ استعمال کرنا) اچھا نہیں لگتا (لیکن ایسا کرنا پڑرہا ہے) اس لیے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتے۔" امریکی صدر کایہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ مشرق وسطیٰ میں غزہ پر اسرائیل کا یلغار تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور ایران-اسرائیل تناؤ اپنے عروج ہے۔
خود کو ایک ماہر "ڈیل میکر" کہنے والے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، ایران کو جوہری طاقت بننےسے روکنے کے لیے ایک نیا معاہدہ کرناچاہتے ہیں۔ جب کہ ایران، جو پچھلے دو دہائیوں سے شدیدمعاشی پابندیوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور تزویراتی طور پر کمزور پڑتا جا رہا ہے، اس سے نجات کی راہیں تلاش کر رہا ہے اور عالمی طاقتوں کےفوجی تصادم سے بچنا چاہتا ہے۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان یہ سیاسی رساکشی کی داستان محض ایرانی جوہری پروگرام کے منظرنامہ پر آنے شروع نہیں ہوتی ہے—یہ ان کے درمیان دہائیوں پر مبنی دشمنی، مشرق وسطی میں عرب بہاریہ کے بعد کی سیاسی اتھل پتھل، اور جیو اسٹریٹیجک مفادات کی ایک پیچیدہ داستان ہے۔
امریکہ اور ایران کے تعلقات کی تلخی: تاریخی جڑیں اور گہرائی
امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات میں تلخی کی ابتدا 1953 کے ایک اہم واقعے سے ہوتی ہے، جب امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے برطانیہ کے ساتھ مل کر ایران کے جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم محمد مصدق (1882-1967) کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ مصدق، جو 1951 میں ایران کے تیل کے وسائل کو قومیانے کی کوششوں کی وجہ سے اس خطہ میں مغربی مفادات کے لیے خطرہ بن چکے تھے۔ اس امریکی مداخلت نے شاہ محمد رضا پہلوی (1919-1980) کی آمریت کو دوبارہ بحال کر دیا، جو ایک مغرب نواز حکمراں تھے اور ایران کو اپنے سخت گیر اقتدار کے ذریعے کنٹرول کرنا چاہتے تھے تاکہ مغربی مفادات پر آنچ نہ آسکے۔ اس واقعے نے ایرانی عوام میں مغربی طاقتوں کے تئیں ایک گہری اور دیرپا نفرت کو جنم دیا، اس لیے کہ ایرانی قوم نے اسے اپنی خودمختاری پر حملہ سمجھا۔ یہ تلخی محض ایک سیاسی ردعمل نہیں تھی، بلکہ ایک قومی شعور بن گئی جو آج بھی ایران کے سیاسی بیانیے کا حصہ ہے۔ شاہ کی آمریت کے زمانے میں نے ایران میں معاشی اور سماجی ناانصافیاں بہت بڑھ گئی تھیں، جس نے بالآخر 1979 کے اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کی۔ اس تناظر میں، 1953 کا واقعہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تلخی کی بنیاد بنا، بلکہ وہی آج کے ایران امریکی جوہری تنازع اور ان کے درمیان سفارتی کشمکش کے تاریخی پس منظر کو بھی سمجھنے میں کلیدی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
1979 کا اسلامی انقلاب ان دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کو ایک نئے اور ڈرامائی موڑ پر لے آیا۔ آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں ایرانی عوام نے شاہ کے مبینہ ظالمانہ اقتدار کو ختم کر کے ایک اسلامی جمہوریہ قائم کرلی اور مغرب کے تسلط کو یکسرمسترد کر دیا۔ اس انقلاب کے دوران ہی تہران میں امریکی سفارت خانے پر ایرانی طلبہ نے قبضہ کر کے اور 52 امریکی سفارتی عملہ کو 444 دن تک یرغمال بنائے رکھا۔ اس واقعہ نے، جسے "یرغمال بحران" کہا جاتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک ناقابل تلافی نقصان پہونچایا۔ امریکہ کے لیے یہ اس کی عالمی ساکھ اور چودھراہت پر کاری حملہ تھا، جب کہ ایران کے لیے مغرب کے خلاف اپنی خودمختاری کا یہ ایک اعلان تھا۔ اس بحران کی وجہ سے امریکی عوام اور پالیسی سازوں میں بھی ایران کے خلاف ایک شدید غصہ پیدا ہو گیا۔ اور اس نے ایران کے تئیں واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کو دہائیوں تک متاثر کیے رکھا۔ ایران میں اسے آج بھی ایک عظیم انقلابی فتح کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور ہر سال ایرانی کیلنڈر کے گیارہویں مہینے، یعنی بہمن کی 22 تاریخ کو، جو انگریزی کیلنڈر کے مطابق 11 فروری کو ہوتی ہے، اس دن کو قومی سطح پر بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔لیکن اس واقعے نے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کے پل کو مکمل طور پر منہدم کر دیا۔ یرغمال بحران کے اثرات آج بھی ہمیں ان کے تعاملات اور معاملات میں دکھائی دیتے ہیں۔ آج دونوں فریق کا ایک تیسرے ملک عمان میں بات چیت کے لیے ملنا دراصل اسی گہرے تاریخی بے اعتمادی کو دکھاتاہے۔ یہ تاریخی زخم اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان سفارت کاری ایک انتہائی پیچیدہ اور نازک عمل ہے۔
1980 کی دہائی میں ایران-عراق جنگ نے اس دشمنی کو مزید ہوا دی۔ صدام حسین نے جب 1980 میں ایران پر حملہ کیا، تو امریکہ کھل کر عراق کی حمایت آ گیا تھا۔ امریکی انتظامیہ نے صدام کو اسلحہ، مالی امداد، اور خفیہ معلومات فراہم کیئے، کیوں کہ وہ ایران کے اسلامی انقلاب کو خطے کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ اس جنگ نے ایران کو آٹھ سال تک خونریزی اور تباہی میں مبتلا رکھا، جس میں لاکھوں ایرانی ہلاک ہوئے۔ اس امریکی حمایت نے ایران کے زخموں کو مزید کریدا اور اسے یہ احساس دلایا کہ امریکہ اسے کمزور کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں 1988 کا ایک اور واقعہ خاصہ اہم اور قابل ذکر ہے، جب امریکی بحریہ کے جنگی جہاز یو ایس ایس ونسینز نے ایک ایرانی مسافر طیارے کو مار گرایا، جس میں 290 افراد ہلاک ہو گئے۔ امریکہ نے اسے "غلطی" قرار دیا، لیکن ایران کے لیے یہ ایک دانستہ حملہ تھا، جو اس کے نزدیک امریکی جارحیت کا ثبوت تھا۔ اس کے بعد سے ایران امریکہ کو "شیطان بزرگ" (عظیم شیطان) کے لقب سے موسوم کرنے لگا۔ جب کہ دوسری طرف واشنگٹن نے ایران کو "دہشت گردی کی سرپرستی" کرنے والا ملک اور " مزاحمت کا محور" قرار دے کر اسے "عالمی تنہائی" میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہ دشمنی نئے رنگوں اور شکلوں میں سامنے آ ئی ہے، جس نے ان ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیاہے۔
11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد جب امریکہ نے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" شروع کی، ایران نے ابتدائی طور پر افغانستان میں تعاون کی پیشکش کی۔ لیکن 2002 میں صدر جارج ڈبلیو بش نے ایران کو "شر کا محور" قرار دے کر اسے مسترد کر دیا۔ 2003 میں عراق پر امریکی حملے نے ایران کے دروازے پر نیا محاذ کھولا۔ ایران نے اسے اپنے لیے خطرہ سمجھا اور اپنے جوہری پروگرام کو تیز کیا، جسے وہ خودمختاری اور دفاع کا ذریعہ سمجھتا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایران پر دہشت گردی کی حمایت اور جوہری عزائم کا الزام لگایا، جب کہ ایران نے امریکی پابندیوں اور فوجی دباؤ کو اپنی معیشت پر حملہ قرار دیا۔ اس دوران ایران نے حزب اللہ اور حماس جیسے پراکسیز کے ذریعے خطے میں اثر بڑھایا، جو اسرائیل اور سعودی عرب کے لیے ناقابل برداشت تھا۔
2011 میں عرب بہار نے مشرق وسطیٰ کو ہلا دیا۔اس کے نتیجے میں جو سیاسی بحران آیا، اس نے خطے کے منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا۔ اس دوران ایران نے اپنے کردار کو مضبوط کیا—چاہے وہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کو سہارا دینا ہو، یمن میں حوثی باغیوں کی مدد کرنا ہو، یا لبنان میں حزب اللہ کے ذریعے اثر و رسوخ بڑھانا ہو—جس نے اسے علاقائی طاقتوں اور مغرب کے لیے ایک ناقابلِ نظرانداز قوت بنا دیا۔ تیونس اور مصر میں آمریتوں کا خاتمہ ہوا، لیکن شام کی خانہ جنگی نے ایران اور امریکہ کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔ ایران نے بشار الاسد کی حمایت کی، جب کہ امریکہ باغیوں کے ساتھ کھڑا ہوا۔ اس دوران ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی تشویش بڑھ گئی۔ صدر باراک اوباما نے سفارت کاری کو ترجیح دے کر امید کی ایک کرن جگائی اور برسوں کی بات چیت کے بعد 2015 میں جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) طے پایا۔ اس معاہدے نے ایران کے یورینیم افزودگی کو 3.67 فیصد تک محدود کیا، اس کا ذخیرہ کم کیا، اور بین الاقوامی معائنہ کاروں کو رسائی دی۔ بدلے میں ایران کو پابندیوں سے نجات ملی۔ لیکن اسرائیل اور سعودی عرب نے اسے ناکافی قرار دیا، کیوں کہ اس میں ایران کے بیلسٹک میزائل اور پراکسیز پر پابندی نہ تھی۔
2016 میں امریکہ میں اقتدار میں آنے والے نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے JCPOA کو "بدترین معاہدہ" کہا اور 8 مئی 2018 کو اس سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے "زیادہ سے زیادہ دباؤ" (Maximum Pressure) کی پالیسی اپنائی۔ اس پالیسی کے تحت عائد کردہ سخت ترین پابندیوں نے ایران کی معیشت کو تباہ کر دیا، تیل کی برآمدات کو تقریباً ختم کر دیا، اور اسے جوہری پروگرام کو تیز کرنے پر مجبور کیا۔ نتیجتا ایران نے جواب میں JCPOA کی شرائط ترک کر دیا، 2019 میں یورینیم افزودگی بڑھا دی، اور 2021 تک 60 فیصد تک پہنچا دیا جو جوہری ہتھیار سے محض ایک قدم دور تھا۔ 2020 میں امریکی ڈرون حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت نے دونوں کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ ایران نے عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل داغے، لیکن بڑا تصادم ٹلا۔ ٹرمپ کی پالیسی ایران کو کمزور کرنے میں ناکام رہی۔ ٹرمپ کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے 2021-2022 میں JCPOA بحال کرنے کی کوشش کی، لیکن ایران کی سخت شرائط اور امریکہ کی پابندیوں نے بات چیت ناکام کر دی۔ ایران نے پراکسیز کے ذریعے اسرائیل اور سعودی عرب پر دباؤ بڑھایا اور روس-چین سے تعلقات مضبوط کیے۔
ان تمام اقدامات نے ایک طرف جہاں عالمی کشیدگی کو ہوا دی وہیں دوسری طرف ان دونوں ممالک کے درمیان نفرت اور کشیدگی کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ تاہم، اس دشمنی کی اصلیت انہی تاریخی واقعات سے جڑی ہے، جن کا ذکر 1953 میں سی آئی اے کی مداخلت اور 1979 کے اسلامی انقلاب کے حوالے سے کیا گیا۔ آج، 2025 میں، جب ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر اقتدار میں ہیں اور ایران کا جوہری پروگرام دوبارہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، دونوں ممالک کے تعلقات مزید گہری تنزلی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ماضی کی یہ داستان ان کے موجودہ تعلقات پر ایک گہرے اور تاریک سائے کی مانند چھائی ہوئی ہے، جو نہ صرف سفارتی امکانات کو دھندلا رہی ہے، بلکہ فوجی تصادم کے خطرات کو بھی ناقابلِ تردید حد تک بڑھا رہی ہے۔ اور اس سے خطے کا مستقبل غیر یقینی کے دھندلکے میں لپٹا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں کسی بھی فریق کی جانب ہر اگلا قدم ایک نئے بحران کی جانب اشارہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔
اب کیا ہو رہا ہے؟
آج، 2025 میں، ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری صدارتی میعاد کے چوتھے مہینے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران کیے گئے بیشتر وعدوں پر امریکی صدر نے عمل درآمد شروع کر دیا ہے ۔اب وہ ایران اور اس کے جوہری پروگرام کی طرف اپنی توجہ کا مرکوز کیا ہے۔ اس بار ان کا عزم ہے کہ اس دیرینہ تنازع کو ایک نتیجہ خیز انجام تک پہنچا کر ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے۔ اسی مقصد کے تحت آج دونوں ممالک عمان میں بات چیت کے لیے آمنے سامنے آ رہے ہیں۔ موجودہ اندازوں کے مطابق، ایران کا جوہری ہتھیاروں کے لیے "بریک آؤٹ ٹائم" اب محض چند ہفتوں تک محدود ہو چکا ہے۔ "بریک آؤٹ ٹائم" سے مراد وہ تخمینی مدت ہے جو ایران کو ہتھیاروں کے قابل یورینیم (90 فیصد تک افزودہ) تیار کرنے میں لگے گی، اگر وہ فوری طور پر جوہری بم بنانے کا فیصلہ کرے۔ یہ صورتحال 2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA) کے دور سے بالکل مختلف ہے، جب یہ وقت تقریباً 12 ماہ تھا۔ اس تبدیلی کی وجہ ایران کا 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کا بڑھتا ہوا ذخیرہ اور جدید ترین سینٹری فیوجز (جیسے IR-6 اور IR-9) کا استعمال ہے، جو افزودگی کے عمل کو تیزی سے مکمل کر سکتے ہیں۔ عام ایٹمی بجلی گھروں کے لیے صرف 3 سے 5 فیصد افزودہ یورینیم درکار ہوتا ہے، لیکن جوہری ہتھیار کے لیے 90 فیصد ضروری ہے، اور ایران کا موجودہ 60 فیصد ذخیرہ اس ہدف کے خطرناک حد تک قریب ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی، جو عمان میں آج ہونے والی اس اہم بات چیت میں ایران کی نمائندگی کریں گے، نے 8 اپریل 2025 کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ایک اداریے میں اپنے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے لکھا، "ایران ایک قابل عمل معاہدے کے لیے پوری سنجیدگی سے کام کرنے کو تیار ہے۔ ہم ہفتے کے روز عمان میں بالواسطہ مذاکرات کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ یہ ملاقات ایک طرف جہاں ایک تاریخی موقع ہے، وہیں دوسری طرف دونوں فریقوں کے لیے ایک بڑا امتحان بھی ہے۔" دوسری جانب، ٹرمپ انتظامیہ نے اس بات چیت کی نوعیت کے بارے میں ملے جلے اشارے دیے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹامی بروس نے گزشتہ منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا، "یہ کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں، بلکہ ایک ملاقات ہے۔ یہ غیر رسمی نوعیت کی ہے اور اس کا مقصد صرف ابتدائی رابطہ قائم کرنا ہے۔" انہوں نے مزید وضاحت کی کہ یہ میٹنگ دونوں فریقوں کے موقف کو سمجھنے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے ہے، نہ کہ کوئی حتمی معاہدہ طے کرنے کے لیے۔ "یہ ایک اعلیٰ سطحی سفارتی عمل کی بجائے محض ایک قدم ہے، جس سے صرف زمین ہموار ہوگی، کوئی بڑی پیش رفت متوقع نہیں۔" تاہم، ان تمام تحفظات کے باوجود، دونوں فریقوں میں ایک معاہدے تک پہنچنے کی حقیقی خواہش نظر آتی ہے، جو اس ملاقات کو اہمیت کو بتاتی ہے۔
فوری ضرورت اور خطے کا جیو پولیٹیکل تناظر
ایران کے جوہری پروگرام کے گرد موجودہ کشمکش کی وجہ سے عالمی سیاست میں ایک نازک صورتحال پیدا ہوگئی ہے، جہاں وقت تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے، اورجس سےخطے کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یوریشیا گروپ کے سینئر تجزیہ کار اور ایرانی سیاست کے ماہر گریگوری بریو کے مطابق، صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس تنازع کو جلد سے جلد حل کرنے کے خواہش رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنی توجہ مشرق وسطیٰ کے دیگر اہم مسائل واہداف کی طرف مبذول کر سکیں۔ خاص طور سے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی، خلیجی ممالک کے ساتھ امریکی معاشی شراکت داری کو مضبوط کرنا، اور خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک نئی طویل المدتی حکمت عملی وضع کرنا شامل ہے۔ بریو کا کہنا ہے کہ "ٹرمپ انتظامیہ ایران کے جوہری پروگرام کو ایک ڈبے میں بند کر کے اسے ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ خطے میں استحکام کے دیگر منصوبوں پر کام شروع کرنے کے لیے راہ ہموار کی اجا سکے ۔" ٹرمپ کی جانب سے اس یہ فوری اقدام کی ضرورت اس لیے بھی شدت اختیار کر گئی ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیت اب پہلے سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہو چکی ہے، اور اس کا "بریک آؤٹ ٹائم" محض چند ہفتوں تک محدود ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اقوام متحدہ کی پابندیوں کا "سنیپ بیک میکانزم"، جو 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت اکتوبر 2025 میں ختم ہو جائے گا، امریکہ کے لیے ایک اہم دباؤ کا ذریعہ بن رہا ہے۔ اگر اس میعاد سے قبل کوئی معاہدہ طے نہ ہوا تو یہ میکانزم، جو ایران پر سخت عالمی پابندیاں دوبارہ نافذ کر سکتا ہے، اپنی افادیت کھو دے گا، جس سے واشنگٹن اپنا ایک بڑا سفارتی ہتھیار گنوا بیٹھے گا۔
اسرائیل، جو ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے، ایران کے تعلق سے بھی "لیبیا ماڈل" کو اختیار کرنے کی وکالت کر رہا ہے۔ یہ ماڈل 2003 میں لیبیا کے رہنما معمر القذافی کے اس معاہدے کو کہا جاتا ہے، جس کے بعد لیبیا نے اپنا جوہری پروگرام مکمل طور پر ختم کر کے مغرب سے پابندیوں میں نرمی حاصل کی تھی۔ تاہم، ایران نے اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اس کی وجہ صرف تاریخی بے اعتمادی ہی نہیں، بلکہ قذافی کا انجام بھی ہے، جو اس لیبیا معاہدے کے چند سال بعد ہی امریکی حمایت یافتہ بغاوت میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔ ایران کے لیے یہ ماڈل نہ صرف اس کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالے دے گا، بلکہ اسے کمزور اور غیر محفوظ بھی بنا دے گا۔ اس تناظر میں، ایران اپنے جوہری پروگرام کو ایک دفاعی ڈھال کے طور پر دیکھتا ہے، جو اسے خطے کی بڑی طاقتوں—خاص طور پر اسرائیل اور سعودی عرب—کے مقابلے میں سکیورٹی فراہم کرے گا۔
مشرق وسطیٰ کا جیو پولیٹیکل منظر نامہ اس وقت ایک پیچیدہ شطرنج کی بساط کی مانند ہے، جہاں ہر کھلاڑی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے چالیں چل رہا ہے۔ ایران نے اپنے "محور مزاحمت" کے ذریعے—جس میں بالخصوص لبنان کی حزب اللہ، اور یمن کے حوثی باغی شامل ہیں—خطے میں ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔ یہ اتحاد اسرائیل اور سعودی عرب کے لیے ایک مستقل خطرہ بنا ہوا ہے، کیوں کہ یہ نہ صرف ان کی سرحدوں پر دباؤ ڈالتا ہے، بلکہ ان کے علاقائی اثر و رسوخ کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ دوسری جانب، امریکہ کے قریبی اتحادی—اسرائیل، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات—ایران کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لیے متحد ہیں۔ اسرائیل کے لیے ایران کا جوہری پروگرام ایک "ایگزسٹینشل تھریٹ" ہے، جب کہ سعودی عرب اسے خلیج میں اپنی بالادستی اور تیل کی عالمی منڈیوں پر گرفت کمزور کرنے والی قوت سمجھتا ہے۔ سعودی عرب کا مقصد خطے میں اپنی معاشی اور فوجی برتری کو برقرار رکھنا ہے، اور وہ ایران کے پراکسیز اور جوہری صلاحیت کو اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ متحدہ عرب امارات بھی اسی صف میں کھڑا ہے، جو ایران کے بحیرہ عرب اور خلیج میں بڑھتے اثر و رسوخ سے خائف ہے۔
اس جیو پولیٹیکل کشمکش میں ایک اور اہم پہلو روس اور چین کا کردار ہے، جو ایران کے لیے تزویراتی شراکت دار بن چکے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے تک روس شام میں ایران کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا، جب کہ چین ایران سے تیل کی خریداری اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے ذریعے اسے معاشی سہارا دے رہا ہے۔ یہ تعلقات ایران کو امریکی دباؤ کے مقابلے میں ایک متبادل سپورٹ سسٹم فراہم کرتے ہیں، جس سے اس کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے۔ دوسری طرف، امریکہ کے لیے یہ صورتحال نہ صرف ایران کو روکنے کی حکمت عملی کو پیچیدہ بنا رہی ہے، بلکہ عالمی طاقت کے توازن کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ اگر ایران جوہری ہتھیاروں کے قریب پہنچتا ہے تو یہ نہ صرف مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو بدل دے گا، بلکہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو بھی اپنے جوہری پروگرام شروع کرنے پر مجبور کر سکتا ہے، جس سے خطے میں ایک خطرناک ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔
اس تناظر میں، عمان میں ہونے والی بات چیت ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ یہ ابتدائی اور بالواسطہ نوعیت کی ہے، لیکن اس کی کامیابی یا ناکامی خطے کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ ایران کو سفارتی طور پر محدود کرے، جب کہ ایران اسے پابندیوں سے نجات اور اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھتا ہے۔ تاہم، خطے کے جیو اسٹریٹیجک مفادات اور تاریخی دشمنیوں کے پیش نظر، یہ بات چیت ایک تنگ رسی پر چلنے کے مترادف ہے، جہاں ایک غلط قدم پورے مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام کے گہرے گڑھے میں دھکیل سکتا ہے۔
داؤ پر کیا لگا ہے؟
امریکہ اور ایران کے درمیان موجودہ کشمکش اب ایک ایسے نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں داؤ پر نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات ہیں، بلکہ مشرق وسطیٰ کی سلامتی، عالمی طاقت کا توازن، اور حتیٰ کہ بین الاقوامی معیشت کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر سفارتی کوششیں ناکام ہوئیں تو اسے "اب تک کی بدترین بمباری" کا سامنا کرنا پڑے گا، اور اس فوجی کارروائی کی قیادت کے لیے اسرائیل تیار کھڑا ہے۔ ٹرمپ کا یہ بیان محض دھمکی نہیں، بلکہ ایک واضح اشارہ ہے کہ واشنگٹن اس تنازع کو حل کرنے کے لیے فوجی طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ اسرائیل، جو ایران کے جوہری پروگرام کو اپنی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بے تاب ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے بارہا کہا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے "تمام ضروری اقدامات" اٹھائے جائیں گے، اور حالیہ مہینوں میں اسرائیل نے اپنی فوجی مشقوں اور انٹیلی جنس آپریشنز کو تیز کر دیا ہے۔ دوسری جانب، ایران جنگ سے بچنے کی خواہش رکھتا ہے، لیکن اس کے کمزور پراکسی نیٹ ورک اور اندرونی سیاسی و معاشی دباؤ اسے جوہری ہتھیار کی طرف دھکیل رہے ہیں، جو اس کے خیال میں خطے میں اپنی ساکھ اور دفاع کو بحال کرنے کا آخری حربہ ہو سکتا ہے۔
اس وقت مشرق وسطیٰ ایک بارود کے ڈھیر کی مانند ہے، جہاں غزہ کی جنگ، ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست حملے، اور خطے بھر میں پراکسی تنازعات نے صورتحال کو انتہائی دھماکہ خیز بنا دیا ہے۔ غزہ میں جاری اسرائیل-حماس جنگ نے پہلے ہی علاقائی کشیدگی کو عروج پر پہنچا دیا ہے، اور اس تنازع نے ایران کے اتحادیوں—خاص طور پر حزب اللہ اور حوثیوں—کو متحرک کر دیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں اسرائیل نے ایران کے جوہری تنصیبات اور فوجی اہداف پر خفیہ حملوں کے علاوہ شام اور لبنان میں اس کے پراکسیز کے خلاف کئی فضائی کارروائیاں کیں، جن کا ایران نے میزائلوں اور ڈرون حملوں سے جواب دیا۔ اس باہمی جارحیت نے خطے کو ایک ایسی جنگ کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے جو نہ صرف ایران اور اسرائیل تک محدود رہے گی، بلکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور حتیٰ کہ امریکی فوجی اڈوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا، "ہم جنگ نہیں چاہتے، لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ فوجی حل کوئی آپشن نہیں ہو سکتا۔" لیکن ایران کی کمزور حالت—اس کے پراکسیز کی حالیہ ناکامیاں اور معاشی تباہی—اسے ایک دفاعی حکمت عملی کے طور پر جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل کر سکتی ہے، جو خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔
داؤ پر صرف خطے کی سلامتی ہی نہیں، بلکہ عالمی معیشت اور توانائی کے وسائل بھی ہیں۔ ایران آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے، جہاں سے دنیا کا تقریباً 20 فیصد تیل گزرتا ہے۔ اگر یہ تنازع فوجی تصادم میں بدلتا ہے تو ایران اس اہم آبی گزرگاہ کو بند کر سکتا ہے، جس سے تیل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوگا اور عالمی معیشت کو شدید دھچکا لگے گا۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک، جو اپنی معیشت کے لیے تیل پر انحصار کرتے ہیں، اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہوں گے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب خود بھی جوہری پروگرام شروع کرنے پر غور کر سکتا ہے اگر ایران جوہری ہتھیار کے قریب پہنچا، جس سے مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی ایک نئی اور خطرناک دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔ امریکی ماہر دفاعی امور ایلن روزنبرگ کے مطابق، "ایک جوہری ایران نہ صرف اسرائیل کے لیے خطرہ ہے، بلکہ یہ پورے خطے کو جوہری مقابلے کی طرف دھکیل سکتا ہے، جس کے نتائج عالمی سطح پر محسوس ہوں گے۔"
اس کے علاوہ، ایران کے اندرونی حالات بھی ایران کی ساکھ کو داؤ پر لگا رکھا ہے ۔ معاشی پابندیوں نے ایران کی کرنسی کو تباہ کر دیا ہے، مہنگائی اور بے روزگاری آسمان چھو رہی ہے، اور عوام پریشان و ناراض ہے۔ ایران کی حکومت اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے یقینا ایک سفارتی معاہدے کی تلاش میں ہے، لیکن ایرانی قیادت کا سخت گیر دھڑا جوہری پروگرام کو اپنی بقا اور قومی فخر سے جوڑکے دیکھتا ہے۔ اگر عمان میں بات چیت ناکام ہوئی تو یہ اندرونی انتشار ایران کو جوہری ہتھیاروں کی طرف تیزی سے دھکیل سکتا ہے، جس سے فوجی تصادم کا خطرہ اور بڑھ جائے گا۔ دوسری طرف، ٹرمپ انتظامیہ کے لیے یہ ایک سیاسی امتحان بھی ہے۔ اگر وہ ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے میں ناکام رہے تو ان کی "امریکہ فرسٹ" پالیسی اور انتخابی وعدوں پر سوالیہ نشان لگ جائے گا، جب کہ فوجی کارروائی کی صورت میں انہیں اپنے ووٹروں اور کانگریس میں تنہائی پسند (isolationist) ریپبلکنز کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس تناظر میں، عمان میں ہونے والی بات چیت ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ اگر یہ کامیاب ہوئی تو خطے میں ایک بڑا بحران ٹل سکتا ہے، لیکن ناکامی کی صورت میں مشرق وسطیٰ ایک ایسی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے جس کے زخم دہائیوں تک کو تازہ رہیں گے۔ داؤ پر صرف ایران یا امریکہ کا وقار نہیں، بلکہ عالمی امن، توانائی کی سلامتی، اور خطے کے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بھی ہوں گی۔ یہ صورتحال نہ صرف فریقین کے ارادوں کا امتحان ہے، بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک چیلنج ہے کہ وہ اس آتش فشاں کو پھٹنے سے روک سکے۔
سفارت کاری کی آخری امید یا تباہی کی شروعات؟
امریکہ اور ایران کے درمیان دو دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری یہ کشمکش اب ایک نازک اور فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی ہے، جہاں مستقبل کے منظر نامے یا تو سفارتی کامیابی کی نوید لا سکتے ہیں یا پھر ایک ایسی تباہی کی طرف دھکیل سکتے ہیں جس کے اثرات نہ صرف مشرق وسطیٰ، بلکہ پوری دنیا پر گہرے اور دور رس ہوں گے۔ 2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA) کی ناکامی، جو کبھی دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے کی ایک امید تھی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی پالیسی، اور ایران کی جوہری صلاحیت میں خطرناک حد تک پیش رفت نے اس تنازع کو ایک نئے اور خطرناک مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔ آج، اپریل 2025 میں، دونوں فریق عمان کی میز پر اس لیے اکٹھا ہو رہے ہیں کہ یہ شاید سفارت کاری کا آخری موقع ہو—ایک ایسی کوشش جو یا تو خطے کو جنگ کے دہانے سے واپس کھینچ لے گی یا اسے تباہی کے گہرے گڑھے میں دھکیل دے گی۔ یہ بات چیت محض ایک رسمی ملاقات نہیں، بلکہ دہائیوں کی دشمنی، سیاسی چالوں، اور جیو پولیٹیکل مقابلے کا عکاس ہے، جس کا نتیجہ عالمی منظر نامے کو نئی شکل دے سکتا ہے۔
JCPOA کی ناکامی اس کہانی کا ایک اہم باب ہے۔ 2015 میں طے پایا یہ معاہدہ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور بدلے میں اسے معاشی پابندیوں سے نجات دلانے کا وعدہ تھا۔ لیکن 2018 میں ٹرمپ کی یک طرفہ دستبرداری اور اس کے بعد کی سخت پابندیوں نے اس امید کو خاک میں ملا دیا۔ ایران نے جواب میں اپنی جوہری سرگرمیوں کو تیز کیا، اور آج اس کا "بریک آؤٹ ٹائم" چند ہفتوں تک محدود ہو چکا ہے۔ 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کا ذخیرہ اور جدید سینٹری فیوجز نے ایران کو جوہری ہتھیار کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس پیش رفت نے نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں—خاص طور پر اسرائیل اور سعودی عرب—کو پریشان کر دیا ہے، بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی نے ایران کو معاشی طور پر کمزور ضرور کیا، لیکن اسے جوہری پروگرام سے باز رکھنے میں ناکام رہی۔ اب، جب ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں ہیں، ان کا عزم ہے کہ اسے ایک نتیجہ خیز انجام تک پہنچایا جائے۔ عمان میں ہونے والی یہ بات چیت اس عزم کا امتحان ہے—ایک ایسی کوشش جو یا تو دشمنی کے اس طویل سلسلے کو ختم کر سکتی ہے یا اسے ایک نئے اور خوفناک مرحلے میں داخل کر سکتی ہے۔
اگر یہ سفارتی کوشش ناکام ہوئی تو اس کے نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ ایک نئی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے، جو غزہ کی موجودہ لڑائی، ایران-اسرائیل تناؤ، اور پراکسی تنازعات کے سائے میں پہلے ہی بارود کے ڈھیر کی مانند ہے۔ ایسی جنگ نہ صرف خطے کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے گی، بلکہ اس کے عالمی اثرات بھی ناقابلِ تصور ہوں گے۔ ایران آبنائے ہرمز کو بند کر سکتا ہے، جہاں سے دنیا کا 20 فیصد تیل گزرتا ہے، جس سے عالمی معیشت مفلوج ہو سکتی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ، سپلائی چین کا بحران، اور توانائی کی قلت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو یکساں متاثر کرے گی۔ اس کے علاوہ، اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو سعودی عرب، مصر، اور شاید ترکی بھی جوہری پروگرام شروع کر سکتے ہیں، جس سے خطے میں ہتھیاروں کی ایک تباہ کن دوڑ شروع ہو جائے گی۔ یہ صورتحال نہ صرف مشرق وسطیٰ کے استحکام کو بگاڑ کررکھ دے گی، بلکہ عالمی سیاست میں نئے محاذ کھول دے گی، جہاں روس اور چین جیسے ممالک ایران کے ساتھ مل کر مغرب کے مقابلے میں اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف، سفارت کاری کی کامیابی خطے کو اس تباہی سے بچا سکتی ہے۔ اگر عمان میں کوئی معاہدہ طے پا گیا تو یہ نہ صرف ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کر سکتا ہے، بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خطے میں دیگر ترجیحات—جیسے اسرائیل-سعودی تعلقات کی بحالی اور معاشی استحکام—پر کام کرنے کا موقع دے گا۔ ایران کے لیے یہ پابندیوں سے نجات اور معاشی بحالی کا ذریعہ ہو سکتا ہے، جو اس کے اندرونی استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن اس کے لیے دونوں فریقوں کو تاریخی بے اعتمادی کو پیچھے چھوڑنا ہوگا—ایک ایسی چیلنج جو 1953 کی مداخلت، 1979 کے انقلاب، اور پچھلی دو دہائیوں کے تناؤ کے پیش نظر آسان نہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اسے "ایک موقع اور امتحان" قرار دیا ہے، جب کہ ٹرمپ انتظامیہ اسے ابتدائی رابطے کے طور پر دیکھتی ہے۔ دونوں کے ارادوں اور لچک کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس حد تک اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔
نتیجہ کیا ہوگا—سفارت کاری کی فتح یا تباہی کی شروعات؟ اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔ لیکن یہ واضح ہے کہ عمان کی میز پر ہونے والی یہ بات چیت محض ایک ملاقات نہیں، بلکہ ایک تاریخی لمحہ ہے جو دہائیوں کے تنازع کو یا تو دفن کر دے گا یا اسے ایک نئے، خوفناک باب میں داخل کر دے گا۔ خطے کے کروڑوں باشندوں، عالمی معیشت، اور بین الاقوامی امن کے مستقبل کے لیے یہ ایک فیصلہ کن پل ہے، جہاں غلطی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ دنیا سانس روکے اس کا انتظار کر رہی ہے کہ آیا یہ کشمکش امن کی طرف بڑھے گی یا ایک نئے طوفان کی ابتدا ثابت ہوگی۔
ڈاکٹر آصف نواز
اسسٹنٹ پروفیسر، ہمدرد انسٹیٹوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، جامعہ ہمدر، نئی دلی
9013228794
Comments
Post a Comment